crossorigin="anonymous"> Talaq Ki Qismain | Kin Alfaz Se Talaq Ho Jati Hai | طلاق کی تعریف اور اقسام | Talaq-e-Baain | Talaq Raji - Molana Masood Nqb

Talaq Ki Qismain | kin alfaz se talaq ho jati hai | طلاق کی تعریف اور اقسام | Talaq-e-Baain | Talaq Raji

طلاق کی تعریف:
طلاق کا لغوی معنیٰ ہے چھوڑنا۔ اور شریعت کی اصطلاح میں طلاق یا طلاقن یا مطلقہ وغیرہ الفاظ کے ساتھ نکاح کے بندھن کے توڑنے کو طلاق دینا کہتے ہیں۔
طلاق کی اقسام:
طلاق کی تین قسمیں ہیں:
طلاق بائن (2) طلاق مغلظہ (3طلاق رجعی

طلاقِ بائن:
طلاق بائن وہ طلاق ہے جس میں نکاح بالکل ختم ہو جاتا ہے اور دوبارہ نکاح کیے بغیر اس شوہر کے ساتھ عورت کا رہنا جائز نہیں ہے۔ اگر مرد اور عورت دونوں اکٹھے رہنے پر راضی ہو تو پھر دوبارہ سے نکاح کیا جائے گا پہلے والے نکاح کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔
طلاقِ مغلظہ:
طلاق مغلظہ وہ طلاق ہے جس میں نکاح بالکل ختم ہو جاتا ہے اور ایسے ختم ہوتا ہے کہ مرد عورت دوبارہ آپس میں نکاح کرنا چاہے تو عدت سے پہلے عورت کو کسی اور شخص سے نکاح کرنا پڑے گا اور اس دوسرے شخص سے کم از کم ایک مرتبہ ہمبستری بھی ہو جس میں انزال شرط نہیں ہے پھر جب دوسرا شوہر بھی اس کو طلاق دے دے یا اس کی موت ہو جائے تو پھر پہلے والے شخص سے نکاح ہو سکے گا۔

طلاقِ رجعی:

طلاق رجعی و طلاق ہے جس میں نکاح فورا نہیں ختم ہوتا۔ صاف اور صریح لفظوں میں ایک یا دو طلاق دینے کے بعد اگر خاوند کو پریشانی ہو تو پھر سے نکاح کرنا ضروری نہیں ہے۔ عدت کے اندر دوبارہ نکاح کیے بغیر شوہر اپنی بیوی کو رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اور دونوں میاں بیوی کی طرح رہنے لگے تو درست ہے اور اس کو رجوع کرنا کہتے ہیں۔ البتہ اگر شوہر طلاق دے کر طلاق پر قائم رہا یعنی رجوع نہیں کیا تو جب طلاق کی عدت گزر جائے گی تو نکاح بالکل ختم ہو جائے گا۔ اور عورت جدا ہو جائے گی۔ اور اب یہ طلاق طلاقِ رجعی نہیں رہے گی بلکہ خود بخود طلاقِ بائن بن جائے گی۔

میاں بیوی میں سے کون طلاق دے سکتا ہے اور کون نہیں۔۔۔؟؟

طلاق دینے کا اختیار عورت کو نہیں بلکہ صرف مرد کو ہے۔
اور پھر جب مرد نے طلاق دے دی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ عورت کا اس میں کچھ اختیار نہیں چاہے منظور کرے چاہے نہ کرے ہر صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 01
خاوند کو صرف تین طلاق دینے کا اختیار ہے اس سے زیادہ کا اختیار نہیں اگر چار پانچ یا اس سے زیادہ طلاقیں دے دیں تب بھی تین ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور باقی زائد طلاقیں ضائع ہو جائیں گی۔
مسئلہ 02
جب خاوند نے اپنی زبان سے کہہ دیا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اتنے زور سے کہا کہ خود ان الفاظ کو سن لیا بس یہ کہتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔ چاہے کسی کے سامنے کہے یا تنہائی میں کہے اور چاہے بیوی نے یہ الفاظ سنے ہوں یا نہ سنے ہوں اور چاہے عورت کے حیض کے دن ہوں یا حمل کے دن ہوں ہر حال میں طلاق واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 03
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو جب تک عورت عدت میں رہے گی تب تک دوسری اور تیسری طلاق دینے کا بھی مرد کو اختیار ہے۔ اگر اور طلاق دے گا تو اور طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 04
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ تعالیٰ بھی کہہ دیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ اگر خدا چاہے تو تجھے کو طلاق اس سے بھی کسی قسم کی طلاق نہیں واقع نہیں ہوگی البتہ اگر طلاق دے کر ذرا ٹھہر گیا پھر انشاء اللہ کہا تو پھر طلاق واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 05
اگر کسی شخص نے مثلاً کہا ایک طلاق دی یا میری طرف سے ایک طلاق تو اگر چہ اس میں طلاق کی واضح اضافت اور نسبت بیوی کی طرف نہیں ہے یعنی بیوی کا نام لے کر نہیں کہا کہ اس کو طلاق دی تب بھی اگر خطاب اپنی بیوی سے تھا یا اس کی طرف اشارہ تھا جو زوجہ کی طرف اضافت کی وجہ ہے تو یہ اضافت معنویہ ہی کافی ہے صریح اضافت ضروری نہیں اور طلاق واقع ہو جائے گی لیکن اگر زوجہ کے مراد ہونے پر وجہ نہ ہو اور شوہر بھی زوجہ کے مراد ہونے کا انکار کرتا ہو تو پھر طلاق واقع نہ ہوگی۔
مسئلہ 06
ایک شخص اگر گونگا ہو اگر لکھنا بھی نہ جانتا ہو اور یہ شخص ایسا اشارہ کرے کہ جس سے صاف طور پر طلاق ہی سمجھی جائے تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 07
اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اس شہر میں یا اس بستی میں جتنی بھی عورتیں ہیں ان کو طلاق اور اس کی بیوی بھی ان عورتوں میں موجود ہو تو اس کو طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن اگر شوہر نے بیوی کو کہا کہ تیری قوم کو یا خاندان کو طلاق تو چونکہ وہ عورت اس خاندان اور قوم میں داخل ہے اس لیے اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے یوں کہا کہ محلہ کی عورتوں کو یا اس فلاں گھر کی عورتوں کو یا اس کمرے کی عورتوں کو طلاق اور اس شخص کی بیوی ان میں شامل ہو تو اس صورت میں بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔
مسئلہ 08
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو واقعی طلاق نہ دی ہو لیکن لوگوں کے سامنے جھوٹ موٹ اقرار کر لیا ہو کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس سے عدالت کے نزدیک طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر عورت کو بھی علم ہو تو وہ بھی اس کو طلاق شمار کرے گی۔ لیکن اگر شوہر نے اس بات پر گواہ بنا لیے ہوں کہ وہ طلاق کا جھوٹا اقرار کرے گا تو اب اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔
مسئلہ 09
اگر کسی شخص نے دباؤ اور مجبور ہو کر کسی وجہ سے گزشتہ زمانہ میں طلاق دینے کا جھوٹا اقرار کیا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
مسئلہ 10
اگر کسی شخص نے طلاق کی نیت سے اپنی بیوی کو تین کنکر دیئے یا لکڑی سے تین خط کھینچ دیئے لیکن زبان سے طلاق کا صریح یا کنا یہ لفظ نہیں کہا تو اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

تنبیہ:
بعض لوگ لاعلمی میں یہ سمجھتے ہیں کہ حمل کے دوران یا گواہوں کے بغیر طلاق دینے سے یا تحریری طلاق وصول نہ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ طلاق جب بھی دی جائے گی تو ہر حالت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ خواہ حیض کے دنوں میں طلاق دی ہو یا حمل کے دوران طلاق دی ہو اسی طرح گواہ ہوں یا نہ ہوں اور بیوی نے سنا ہو یا نہ سنا ہو۔ اسی طرح شوہر تنہائی میں بھی طلاق دے دے تو پھر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شوہر جب طلاق کی تحریر لکھ دے یا لکھوالے تو تحریر لکھتے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ اس کے بعد وہ عورت کو تحریر بھیجے یا نہ بھیجے اور اگر بھیجے تو وہ عورت اس تحریر کو وصول کرے یا نہ کرے

People also ask

Leave a Comment