crossorigin="anonymous"> سورۃ المؤمن کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Mu'min Ka | KHolasa Quran - Molana Masood Nqb

سورۃ المؤمن کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Mu’min ka | KHolasa Quran

پارہ نمبر 18
سورہ مومنون ترتیبی 23 نمبرنزولی نمبر 74

سورۃ المومنون مکی سورت ہے اس میں ایک سو اٹھارہ آیات اور 6 رکوع ہیں۔

 

سورۃ المؤمن کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Mu'min ka | KHolasa Quran
سورۃ المؤمن کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Mu’min ka | KHolasa Quran

وجہ تسمیہ

سورۃ کی ابتدائی آیات میں مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں اس وجہ سے اس سورت کا نام سورہ مومنون رکھ دیا گیا۔

جنت الفردوس کے مستحقین کی صفات

سورۃ کی ابتدائی 9 آیات میں مومنین کے سات ایسی صفات ذکر کی گئی ہیں جن کی وجہ سے وہ جنت الفردوس کے مستحق ہوں گے۔ وہ سات صفات درج ذیل ہیں:
۱۔ سچائ ایمان جو کہ ریا اور نفاق سے پاک ہو۔
۲۔ نماز میں خشوع یعنی اللہ کے سامنے عاجزی اور خوف کے ساتھ کھڑے ہوں۔
۳۔ لغو سے اعراض یعنی ہر ایسے قول و فعل کو لغو کہا جاتا ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔
۴۔ کامل طریقے سے زکوۃ کی ادائیگی گویا وہ حقوق اللہ کے سا تھ حقو قالعباد کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
۵۔ وہ زنا اور فحش کاموں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں۔
۶۔ وہ امانتوں کی حفا ظت کرتے ہیں اور وعدے پورے کرتے ہیں۔
۷۔ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وقت کا بھی لحاظ رکھتے ہیں اور ارکان و آداب کی بھی رعایت کرتے ہیں۔

شکم مادر میں انسانی وجود کے مراحل

مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد خود انسان کی زندگی اور اس کی تخلیق کے مختلف مراحل میں ایمان کے جو دلائل پائے جاتے ہیں وہ ذکر کیے گئے ہیں:
قرآن نے شکم مادر میں انسانی وجود کے مراحل آج سے کئی سو سال پہلے اس وقت بیان کئے تھے جبکہ عرب و عجم کے حکام ان میں سے کوئی بھی ان مراحل کے بارے میں بات نہیں کر پاتا تھا۔آ ج کی جدید سائنس اور میڈیکل تحقیقات بھی ان مراحل کی تصدیق کرتی ہیں۔
تکوینی دلائل:

انسان کے وجود میں دلائل ایمان بیان کرنے کے بعد تین قسم کے تکوینی دلائل بیان کئے گئے ہیں۔

۱۔ ساتوں آسمانوں اور ان کے اندر جو عجیب مخلوقات ہیں ان کی تخلیق۔
۲۔ بارش کا برسانا اور اس کے ذریعے مختلف غلہ جات اور پھلوں کا اگانا۔
۳۔ چوپاؤں اور ان کے اندر دودھ گوشت اون سواری اوربار برداری جیسے منافع کا پیدا کرنا۔

بعض انبیاء کے قصص

اللہ تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اب سورت منتقل ہوجاتی ہے بعض انبیاء کے قصص کی طرف۔اس سلسلہ میں حضرت نوح ، حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت موسی اور حضرت ہارون اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کے قصے بیان کیے گئے ہیں۔

مختلف فرقے اور گروہ

ان تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت ایک ہی پروگرام اور ایک ہی مقصد تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی زمانے اور ایک ہی ملک میں مبعوث ہوئے تھے لیکن ان انبیاء کے جانے کے بعد ان کے امتی مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ہر گروہ اپنے خیال میں مست بور خیالات پر خوش تھا۔

مسلمان ایک نہیں

کیسے کہا جائے کہ آج ہم مسلمان بھی اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ قرآن بھی ایک ، نبی بھی ایک، قبلہ بھی ایک لیکن مسلمان ایک نہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں تکفیر و تفسیق کے فتوے اباہم جدل ونزاع۔

اختلافات کا حل

ان اختلافات کے حل کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرقہ کتاب و سنت کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔

ایک طرف

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو باہم جدل و نزاع میں مصروف ہیں اور ان کے دل غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف

تو دوسری طرف اللہ کے وہ نیک بندے ہیں جو آپس میں محبت کرتے ہیں ان کے دل بیدار اور ہدایت کے نور سے منور ہے۔

چار نمایاں صفات

ان لوگوں کے اندر چار نمایاں صفات پائی جاتی ہیں۔

پہلی صفت

یہ ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

دوسری صفت

یہ ہے کہ وہ اللہ کی تکونی اور تشریعی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔

تیسری صفت

یہ ہے وہ ریا سے بچتے ہیں اور ہر عمل خالص اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں۔

چوتھی صفت

یہ کہ انہیں احسان کی صفت حاصل ہوتی ہے۔ یعنی نیک اعمال کرنے کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں ہمارے اللہ کے ہاں یہ قبول بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔

حرماں نصیب

ان مخلص مومنوں کے مقابلے میں وہ حرماں نصیب بھی ہیں جو قرآن اور صاحب قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں۔

سرکشی کے اسباب

ان کے استہزاء اور سرکشی کے تین بڑے اسباب قرآن نے بیان کیے ہیں:
۱۔ پہلا یہ کہ وہ عقلوں کو استعمال نہیں کرتے بلکہ قرآن میں غور و تدبر کیے بغیر استہزاء اور انکار کرنے لگتے ہیں۔
۲۔ دوسرا یہ کہ وہ محض ضد اور عناد کی بناء پر اللہ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں ورنہ ایسا نہیں کہ وہ آپ کو پہچانتے نہ ہوں۔ وہ آپ علیہ السلام کی صداقت و امانت حسب نسب اور شخصیت کو خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتے۔
۳۔ تیسرا سبب سوالیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ کیا انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں( معاذاللہ) کوئ جنون کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

حق کو خواہشات کے تابع

یقینا ان میں سے بعض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے۔ لیکن ان کی تکذیب کا اصلی سبب یہ نہیں ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کو معاذاللہ مجنون سمجھتے ہیں بلکہ حقیقی سبب یہ ہے کہ وہ حق کو ناپسند کرتے ہیں اور حق کو اپنی خواہشات کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر حق ان کی خواہشات کے تابع ہوتا تو نظام کائنات میں خلل واقع ہو جاتا۔

قیامت کے دن

توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کے بعد سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان دوسرے فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔

۱۔ سعداء یعنی نیک بخت

سعداء یعنی نیک بخت کا اعمال نامہ بھاری ہوگا۔

۲۔ اشقیاء یعنی بدبخت

اور اشقیاء کا اعمال نامہ ہلکا ہوگا وہاں تعلقات کام نہیں آئیں گے۔ اور دنیا میں لوٹنے کی تمنا کریں گے ظاہر ہے ان کی تمنا پوری نہیں ہوگی۔ انہیں یاد کرایا جائے گا کہ اہل ایمان کا دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے آج ان کے لیے خسارہ کے سوا کچھ نہیں۔

ان سے سوال

پھر ان سے پوچھا جائے گا:
“کہ تم زمین میں کتنے برس رہے۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے۔ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئ۔ اللہ فرمائے گا کہ وہاں کم بہت ہی کم رہے ہیں کاش تم جانتے ہوتے۔”
یعنی اگر تمہارے پاس کچھ عقل و فہم ہوتا تو تم جانتے کہ دنیا حقیر اور قلیل ہے۔

ان سے سوال کا مقصد

ان سے اس سوال کا مقصد انہیں حسرت میں مبتلا کرنا اور آخرت کی لامحدود زندگی کے مقابلے میں دنیا کی حقارت کو بیان کرنا ہے۔ اس دن انہیں زندگی کی خست اور محدودیت کا احساس ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے خطاب

ابن کثیر میں ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سامنے خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا:
اللہ تعالی جب اہل جنت کو جنت میں اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرے گا تو

اہل جنت سے سوال

کرے گا کہ اہل جنت تم زمین پر کتنے سال رہے۔ وہ عرض کریں گے کہ ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ اللہ تعالی فرمائیں گے تمہیں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ جو ملا تم نے اس کی رحمت میری رضا اور میری جنت کو خرید لیا۔ اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہو۔

اہل دوزخ سے سوال

پھر اہلِ دوزخ سے سوال کیا جائے گا کہ تم دنیا میں کتنے سال رہے وہ بھی وہی جواب دیں گے جو اہل جنت نے دیا تھا۔ اللہ تعالی فرمائیں گے تمہیں دنیا میں جو رہنے کا موقع ملا تو تم نے اس میں بہت بری تجارت کی کہ میری آگ اور ناراضگی کو خرید لیا اب تم دائمی طور پر اس میں پڑے رہو۔

مجھ سے یہ دعا مانگا کرو

آخری آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے گویا تمام انسانوں کو سکھایا ہے کہ مجھ سےیہ دعا مانگا کرو:
“اے میرے رب مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔”

>سورہ فرقان کا تعارف
>سورہ المومنون کی آخری چار آیات
>سورہ المومنون کا ترجمہ تفسیر
سورہ مومنون آیت >14
>أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا اردو ترجمہ

Leave a Comment