crossorigin="anonymous"> Surah Kahf Tafseer Pdf |What Is Surah Kahf Talking About |سورہ کہف کی تفسیر - Molana Masood Nqb

surah kahf tafseer pdf |What is Surah Kahf talking about |سورہ کہف کی تفسیر

سورۀ کہف (ترتیب نمبر 18 نزول نمبر 69)

سورہ کہف مکی سورت ہے اور اس میں 110 آیت اور 12 رکوع ہیں۔

وجہ تسمیہ:

کہف غارکو کہتے ہیں کیونکہ اس سورت میں غار والوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اسے سورہ کہف کہا جاتا ہے۔

سورہ کہف کی فضیلت

اس سورت کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں۔ امام احمد مسلم اور نسائی نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ:
۱۔ جو شخص سورہ کہف کی آخری دس آیات پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔
۲۔ اہل علم کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ:
جمعہ کے دن یا رات میں سورہ کہف پڑھی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے گا اس کے لئے دو جمعوں کے درمیان کو نور سے منور کر دیا جائے گا۔

ابتدا الحمداللہ سے

سورہ کہف ان پانچ سورتوں میں سے ہے جن کی ابتدا الحمداللہ سے ھوتی ھے۔ باقی چار صورتیں یہ ہیں:
۱۔ فاتحہ ۲۔ انعام ۳۔ سبا ۴۔ فاطر

معرکہ ایمان و مادیت:

حضرت مولانا علی میاں نور اللہ مرقدہ نے اس سورۃ کی تفسیر میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں طویل غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس سورت کا موضوع” معرکہ ایمان ومادیت ہے”۔

سب سے بڑا علمبرداردجال:

اس سورت کا آخری دور کے فتنوں سے خاص تعلق ہے۔ جس کا سب سے بڑا علمبردار دجال ہوگا۔ یہ سورت مسلمانوں کو دجال کے فتنہ سے مقابلہ کے لئے تیار کرتی ہے۔ اس سورت میں جتنے اشارے واقعات اور مثالیں گزری ہیں وہ سب ایمان اور مادیت کی کشمکش کو بیان کرتی ہیں۔

سورہ کہف میں تین قصے اور تین تمثیلیں بیان ہوئی ہیں۔

1۔ اصحاب کہف:

پہلا قصہ اصحاب کہف کا ہے یہ وہ چند صاحب ایمان نوجوان تھے جنہیں دقیانوس نامی بادشاہ بت پرست پر مجبور کرتا تھا۔ وہ ہر ایسے شخص کو قتل کر دیا کرتا تھا جو اس کی شرکیہ دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا۔
۱ ۔ ان نوجوانوں کو ایک طرف مال و دولت کے انبار اونچے عہدوں پر تقرراور معیار زندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں۔
۲ ۔ اور دوسری طرف ڈرایا دھمکایا گیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔
۳۔ ان نوجوانوں نے ایمان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم جانا اور اسے بچانے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے شہر سے بہت دور ایک پہاڑ کے غار تک پہنچ گئے۔

غار میں پناہ:

انہوں نےاس غارمیں پناہ لینے کا ارادہ کیا جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو اللہ نے انہیں گہری نیند سلا دیا جہاں وہ 309 سال تک سوتے رہے۔

نیند سے بیداری

جب نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی۔ ان میں سے ایک کھانا خریدنے کے لئے شہر آیا وہاں اسے پہچان لیا گیا۔

موحد برسراقتدار:

تین صدیوں میں حالات بدل چکے تھے اہل شرک کی حکومت کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اور اب موحد برسرِاقتدار تھے۔

قومی ہیرو:

ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیروز کی حیثیت اختیار کر گئے۔

اس قصہ سے سبق:

اس قصہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مومن کو ایمان کے سلسلہ میں بڑا حساس ہونا چاہیے۔ اوراگر خدانخواستہ مادیت اور ایمان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کا مرحلہ آئے تو اسے بہرطورایمان کی حفاظت ہی کو ہر مادی چیز پر ترجیح دینی چاہیے۔

2۔ حضرت موسی اور حضرت خضر علیہاالسلام:

دوسرا واقعہ حضرت موسی اور حضرت خضر علیہماالسلام کا ہے۔

تلاش خضر:

سیدنا موسی علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ تو آپ ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے چلتے چلتے آپ سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔

ملاقات خضر

یہاں آپ کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ اور آپ نے ان کے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے پھر 3 عجیب واقعات پیش آئے۔

پہلا واقعہ:

پہلے واقعہ میں حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کو پھاڑ ڈالا جس کے مالکان نے انہیں کرایا لیے بغیر بٹھا لیا تھا۔

دوسرا واقعہ

دوسرے واقعہ میں ایک معصوم بچے کو قتل کر دیا۔

تیسرا واقعہ

تیسرے واقعہ میں ایک ایسے گاؤں میں گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس گاؤں والوں نے انہیں کھانے تک کھلانے سے انکار کر دیا تھا۔

آپ نے ایسا کیوں کیا:

حضرت موسی علیہ السلام تین مواقع پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟

جدائی کا اعلان

تیسرے سوال کے بعد حضرت خضر علیہ سلام نے جدائی کا اعلان کردیا کہ اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے۔

ان واقعات کی اصل حقیقت

البتہ تینوں واقعات کی اصل حقیقت انہوں نے آپ کے سامنے بیان کر دی۔ فرمایا کہ:

کشتی کا تختہ:

کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے ہوئے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی زبردستی چھین رہے تھے۔ جب میں نےاسےعیب دارکردیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے سے بچ گئی۔ یوں ان غریبوں کا ذریعہ معاش محفوظ رہا۔

بچے کا قتل

بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ یہ بڑا ہو کر والدین کے لیے بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا۔ جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انہیں کفرکی نجاست میں مبتلا کر دیتا۔ جبکہ اللہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے انتہائی نیک والدین محض اس کی محبت میں ایمان تک سے محروم ہو جائیں۔ اس لیے اللہ نے اسے مارنے کا اور اس کے بدلے انہیں باکردار اور محبت و اطاعت کرنے والی اولاد دینے کا فیصلہ فرمایا۔

دیوار کی تعمیر

گرتی ہوئی دیواراس لیےتعمیر کی کیوں کہ وہ دو یتیم بچوں کی ملکیت تھی۔ ان کے والدین اللہ کے نیک بندے تھے۔ دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے اور نیک والدین کے دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے۔ ہم نے اس دیوار کو تعمیر کر دیا تا کہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لا سکیں۔

حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے واقعہ سے سبق:

حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے سامنے شب و روز جو واقعات پیش آتے ہیں:
۱۔ کسی کو جوانی یا بچپن میں موت آ جاتی ہے۔
۲۔ کوئی کسی حادثہ کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتا ہے۔
۳۔ کسی کے عمارت گر جاتی ہے۔
۴۔ کسی کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے۔
تو ان تمام واقعات کے پس پردہ بڑی عجیب وغریب حکمتیں اور حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔

دنیا کا ظاہر و باطن:

اس دنیا کے ظاہر اور باطن میں بڑا اختلاف ہے انسان کی نظر ظاہر میں الجھی رہتی ہیں اور باطنی رازوں کے ادراک سے اس کی عقل قاصر رہ جاتی ہے۔

مادیت کے علمبرداروں کی تردید

یہ قصہ مادیت کے ان علم برداروں کی تردید کرتا ہے جو ظاہرہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے پس پردہ کسی حکیم وخبیر کے حکمت کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔

3۔ ذوالقرنین

تیسرا قصہ ذوالقرنین کا ہے لیکن اسے انشاءاللہ ہم سولہویں پارہ کے اہم مضامین میں ذکر کریں گے۔

تین مثالیں

1۔ دوثمربار اور قیمتی باغوں کا مالک

پہلی مثال ایک قصہ کس سورت میں پیش کی گئی ہے۔ یہ قصہ ایک ایسے شخص کا ہے جو دو انتہائی ثمربار اور قیمتی باغوں کا مالک تھا۔ ان باغات کے علاوہ مال و دولت کے حصول کے کئی دوسرے اسباب بھی اس کے لیے مہیا ہو گئے تھے۔ دولت کی کثرت نے اسے فخر اور غرور میں مبتلا کردیا وہ بڑے بڑے دعوے کرنے لگا۔ اسے یہ غلط فہمی ہو گئی کہ یہ ثروت وغِنا اسے ہمیشہ حاصل رہے گی اور اس پر کبھی بھی زوال نہیں آئے گا۔ اس کا خیال تھا کہ اول تو قیامت قائم ہی نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو وہاں بھی مجھے خوشحالی حاصل رہے گی۔

دولت کی پٹی

اس کے صاحب ایمان دوست نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اسباب کو خدا کا درجہ مت دو انہیں سب کچھ نہ سمجھو۔ اور اللہ کو ہرگز نہ بھولو۔ اس کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے لیکن دولت نے اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی کہ سورج سے بھی زیادہ یہ روشن حقیقت اس کی سمجھ میں نہ آ سکی۔

اللہ کا عذاب:

پھر اللہ کا عذاب آیا اور اس کے باغات جل کر کوئلہ ہو گئے۔ تباہی اور بربادی کے بعد وہ پچھتانے لگا کہ اے کاش! میں نے شرک نہ کیا ہو تا اور اسباب کو خدا کا درجہ نہ دیا ہوتا مگر اس کا پچھتاوا اس کے کسی کام نہ آیا۔

شرک فی الاسباب:

یہ بات واضح ہے کہ یہ شخص خدا کو مانتا تھا۔ اور قیامت کا مبہم سا تصور بھی اس کے دل میں تھا اور یہ جو اس نے کہا کہ:
میں نے شرک نہ کیا ہوتا۔ تو اس سے مراد”شرک فی الاسباب” تھا۔ یعنی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لینا اور مسبب الاسباب کو بھول جانا۔

بے لاگ تجزیہ:

اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ غیر مسلم تو اس شرک میں مبتلا تھے ہی۔ بہت سارے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اسباب کو اختیار کرنا ایمان اور توکل کے منافی نہیں۔ مگر اسباب کو موثرباالذات سمجھنا یقیناً ایمان کے منافی ہے۔

2۔ دنیا کی زندگی

دوسری مثال جو بیان کی گئی وہ باری تعالی نے یوں بیان فرمائی ہے:
“اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر دوں اس کی مثال ایسی ہے جیسے (زمین کی روئیدگی کا معاملہ) آسمان سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی روئیدگی اس سے مل جل کر ابھر آئی (اورپھلی پھولی) پھر (کیا ہوا؟ یہ کہ) سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہو گیا۔ ہوا کے جھونکے سے اڑا کر منتشر کر رہے ہیں اور کون سی بات ہے جس کے کرنے پر اللہ تعالی قادر نہیں۔

زوال اور فنا میں دنیا کی زندگی:

زوال اور فنا میں دنیا کی زندگی اس بارش کی طرح ہے جو آسمان سے برستی ہے۔ اس کی وجہ سے پوری زمین سرسبز ہو جاتی ہے۔ فصلیں لہلہااٹھتی ہیں۔ پھول کھل جاتے ہیں۔ ہر طرف خوشنما منظر دکھائی دیتے ہیں۔

کمال پر زوال

پھر اس کمال پر زوال آتا ہے۔ پھول مرجھا جاتے ہیں۔ پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ فصل کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اسے پیروں تلے روندا جاتا ہے۔ وہ چورا چورا ہو کر ہوا میں بکھر جاتی ہے۔

جاھل اور احمق دھوکے کا شکار

یہی حال دنیا کی نعمتوں کا ہے جو کہ زوال پذیر ہیں۔ صحت جوانی زندگی خوشحالی اور عیش و عشرت کی ساری صورتیں عارضی ہیں۔ ان نعمتوں کی وجہ سے صرف جاھل اور احق ہی دھوکے کا شکار ہوتے ہیں۔

اصحاب عقل

اصحاب عقل جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان اور زینت ہے۔ باقی رہنے والی ہمیشہ کی زندگی میں کام آنے والی چیز نیک اعمال ہیں:
صدقہ خیرات ہے، ذکر و تلاوت ہے،اچھے اخلاق ہیں اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ہے۔

3۔ تکبر اور غرور

تیسری مثال تکبر اور غرور کی ہے اور اسے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کے قصہ میں بیان کیا گیا ہے۔ جب اس نے کبروغرور کی وجہ سے اللہ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں افضل ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ افضل مفضول کے سامنے سجدہ کرے۔

بندگی کا تقاضا:

اس قصہ کے ضمن میں انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی فخر اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو۔ اور اللہ کے حکموں کے سامنے منطق نہ لڑاۓ۔ کہ بندگی کا تقاضا تسلیم وانقیاد ہے نہ کہ حجت بازی اور انکار۔

پارہ نمبر 16

سولہوں پارہ کے ابتدائی آیات میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیہا السلام کے قصہ کا بقیہ ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد ذوالقرنین کا قصہ ہے۔

ذوالقرنین کی شخصیت

ذوالقرنین کی شخصیت میں مفسرین کا اختلاف ہے۔
۱۔ بہت سے حضرات سکندر مقدونی کو ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سکندر کو ذوالقرنین قرار دینا مشکل ہے۔ کیونکہ یہ شخص ایمان اور خوف خدا سے خالی تھا۔
۲۔ جب کہ قرآن نے جس شخص کا ذکر کیا ہے۔ وہ صرف وسائل و اسباب رکھنے والا بادشاہ ہی نہیں تھا۔ بلکہ اس کے اندر ایمانی صفات بھی پائی جاتی تھیں اور اس کے برخلاف اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو صرف انسانیت کی خدمت اور قیام عدل کے لیے استعمال کیا۔
۳۔ بعض حضرات نے سکندر کے علاوہ دوسرے کئی بادشاہوں کو قرآن کا ذوالقرنین قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کسی شخصیت کا تعین نہ بھی ہو سکے تو بھی اس مقام کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ قرآن کا مقصد تاریخی تفصیلات جزئیات اور شخصیات کا ذکر کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصود اس سے پیدا ہونے والی عبرت اور نصیحت کو اپنے قارئین کی طرف منتقل کرنا ہے۔
۴۔ قرآن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ نے مادی قوت بھی عطا کی تھی اور روحانی و ایمانی طاقت بھی اسے حاصل تھی۔ اس کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ ایک طرف مشرق کے آخری کنارے اور دوسری طرف مغرب کے انتہائی سرے تک پہنچ گیا تھا۔

مضبوط دیوار کی تعمیر

اپنی فتوحات کے زمانے میں اس کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو پہاڑوں کے درمیان آباد تھی اور ہمیشہ ایک قوم کے حملوں کا نشانہ بنتی تھی۔ جسے قرآن نے یاجوج ماجوج کا نام دیا ہے۔ اس مظلوم قوم کی درخواست کرنے پر ذوالقرنین نے ایسی مضبوط دیوار تعمیر کر دی جس کی وجہ سے وہ یاجوج ماجوج کی یورش اور حملوں سے محفوظ ہو گئے۔

یاجوج ماجوج

یہ دیوار قرب قیامت میں ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور یاجوج ماجوج پوری دنیا میں پھیل جائیں گے۔

دجال

ذوالقرنین مادی وسائل کی بہتات کے باوجود اللہ پر ایمان رکھتا تھا جبکہ مادیت پرست افراد اور بادشاہ ظاہری اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس وقت مادیت کی بندگی میں پیش پیش ہونے کا سہرا مغربی تہذیب کے سر بندھتا ہے اور اس تہذیب کا جو سب سے بڑا نمائندہ ظاہر ہوگا اسے زبان نبوت میں دجال کہا گیا ہے۔

دجال کا ظہور:

اور لگتا یہ ہے کہ اس کے ظہور میں اب زیادہ دیر نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایمان اور مادیت کے درمیان آخری معرکہ برپا ہونے میں اب تھوڑا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو دجالی تہذیب اور دجال کے ظہور کے وقت اپنے ایمان بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

مادیت پرستوں کوحکم:

سورہ کہف کے اختتام پر گویا ان لوگوں کو حکم دیا گیا ہے جو صرف مادیت اور ظاہری وسائل ہی کو سب کچھ نہیں سمجھتے پس جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے چاہیے کہ اچھے کام انجام دے اور اپنے پروردگار کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔

 1>سورہ کہف مکمل

2>سورہ کہف کی پہلی دس آیات کی فضیلت
سورہ کہف کی تفسیر 3>pdf
سورہ کہف مکمل pdf
4>جمعہ کے دن سورہ کہف کی فضیلت
5>سورہ جمعہ کی فضیلت
6
>سورہ کہف کی تلاوت

Leave a Comment