crossorigin="anonymous"> Tafseer Of Surah Yunus | تفسیر سوره یونس | Tafseer Quran In Urdu - Molana Masood Nqb

Tafseer of Surah Yunus | تفسیر سوره یونس | tafseer quran in urdu

سورۀ (یونس ترتیبی نمبر 10 اور نزولی نمبر 51)

مکی سورۃ: سورہ یونس مکی ہے۔
آیات: اس میں 109 آیات اور 11 رکوع ہیں۔

وجہ تسمیہ:

کیونکہ اس سورت میں حضرت یونس علیہ سلام کی قوم کا قصہ مذکور ہوا ہے۔ اس لیے اس سورت کا نام حضرت یونس علیہ السلام کے نام پر سورۀ یونس رکھا گیا۔

 

سورۃ کا موضوع:

اس سورت میں ایمان کے بنیادی ارکان اورعقائد بالخصوص قرآن کریم سے بحث کی گئی ہے۔

کتاب اللہ, رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

سورت کی ابتداء کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے ہوتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت سے کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول آتا رہا ہے۔

خالق و مخلوق کے درمیان تعلق:

اس کے بعد ربوبیت، الوہیت اور عبودیت کی حقیقت اور خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی بنیاد بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو رب اور خالق ہے۔ وہی معبود بننے کے لائق ہے۔ کائنات کا یہ سارا نظام اس کی ربوبیت اور قدرت پر گواہ ہے۔

marez check karne ka tarika |بازو ناپ کر تشخیص کرنا |Rohani Ilaj- Online Istikhara

دو گروہ:

اس نظام اور دلائل قدرت میں غور و فکر کے بعد انسان دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
۱۔ تکذیب کرنے والے۔ ۲۔ اور تصدیق کرنے والے/
۱۔ تکذیب کرنے والوں کا انجام آگ۔
۲۔ اور تصدیق کرنے والوں کا انجام دائمی باغات ہیں۔

تکذیب کی بڑی وجہ:

تکذیب کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ عجلت ہے یہاں تک کہ یہ بعض واوقات اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے عذاب اور ہلاکت کی دعائیں مانگتا ہے۔

جھٹلانے والوں کا حال:

جھٹلانے والوں کا حال تو یہ ہے کہ یہ قرآن کو جھٹلانے اور اس کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استہزاء کے طور پر کہتے ہیں:
“کہ آپ کوئی دوسرا قرآن لے آئیں یا اسی میں کچھ تبدیلیاں کردیں۔”

Surah Al-Ma’idah |سورۃ المائدہ اردو ترجمہ_Kholas e Quran_

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:
1۔ مجھے ان میں سے کسی بات کا اختیار نہیں۔
2۔ میں تو وہی کی اتباع کا پابند ہوں۔
3۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے معاذ اللہ یہ کلام خود بنا کر اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
4۔ میں تمہارے اندر زندگی کے چالیس سال گزار چکا ہوں کہ:
۱۔ تم نے مجھے کبھی جھوٹ بولتے ہوئے سنا ہے؟
۲۔ یا کسی استاد سے علم حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے؟
۳۔ اگر نہیں سنا اور نہیں دیکھا تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
۴۔ کہ میں یکایک جھوٹ بولنا شروع کر دوں؟
۵۔ یا ایسا معجزانہ کلام تمہارے سامنے پیش کر دوں؟
5۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں انسانوں پر تو جھوٹ نہ بولو اور اللہ پر جھوٹ بولنے کی جرات کر لوں۔

Bachon ke Islamic names – Islami Naam in Urdu | Ladkiyon Ke Islami Naam in Urdu Pdf – Best Kitab

ابوسفیان اور بادشاہ ہرقل:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی صفائی اور زبان کی صداقت کا یہی وہ پہلو تھا جس کا دشمن بھی اعتراف کرنے پر مجبور تھے۔ ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے زمانہ کفر میں جب روم کے بادشاہ ہرقل نے سوال کیا تھا کہ:
ہرقل روم کا سوال:

کیا دعویٰ نبوت سے پہلے تم نے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ بولتے ہوئے سنا ہے؟

ابو سفیان کا جواب:

تو کافر اور مشرک ہونے کے باوجود ابو سفیان بھی اس سوال کا جواب نفی میں دینے پر مجبور ہوگیا تھا۔

ہرقل کا تاریخی بیان:

ہرقل نے اس کا جواب سن کر کہا تھا کہ:
“یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ تو جھوٹ نہ بولے اور اللہ پر جھوٹ بولنا شروع کر دے۔”

یہ سب کچھ وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا:

امام رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
“مشرکین نے بچپن سے نزول قرآن کے زمانہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مشاہدہ کیا تھا۔”
وہ جانتے تھے:
۱۔ آپ نے نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا۔
۲۔ نہ کسی استاد کی شاگردی اختیار کی۔
۳۔ پھر چالیس سال گزر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یکایک ایک عظیم کتاب ان کے پاس لے کر آگئے:
۱۔ جو علم اصول کے نوادر۔
۲۔ علم احکام کی باریکیوں
۳۔ علم اخلاق کے لطائف
۴۔ اور پہلوں کے واقعات کے اسرار پر مشتمل تھی۔
ہر وہ شخص جسے عقل سلیم عطا کی گئی ہے وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر:

اگلی آیات میں مشرکین کی بت پرستی اور توحید کے دلائل مذکور ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ سختی اور مصیبت کے وقت بڑے سے بڑے مشرک بھی جھوٹے معبودوں کو بھول کر سچے معبود کو پکارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

مشرکین سے سوال:

پھر آپ علیہ السلام کو کہا گیا کہ آپ ان سے سوال کریں:
۱۔ تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے؟
۲۔ تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے؟
۳۔ بے جان سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے؟
۴۔ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ہو؟

قرآن کی صداقت کے حوالے سے چیلنج:

قرآن کی صداقت کے حوالے سے چیلنج کیا گیا کہ اگر یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی اس جیسی سورت بنا کر دکھاؤ اور اس مقصد کے لیے عرب و عجم میں سے ہر ایک کو بلا لو۔

تقصیر کا سبب خود ہی بتا دیا:
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :
“انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ جس چیز سے جاھل ہوتا ہے اور اس کی حقیقت سمجھ نہیں پاتا تو سرے سے اس کا انکار ہی کر دیتا ہے۔”

ہٹ دھرمی چھوڑنے اور ایمان کی دعوت:

مشرکین نے توحید بعث بعد الموت اور قرآن کی صداقت کا جو انکار کیا تو اس کی ایک بڑی وجہ ان کی جہالت تھی۔ اس سورت میں انہیں زجر اور تنبیہ کے ساتھ اور کہیں نصیحت کے انداز میں ان تینوں بنیادی عقائد کے بارے میں ہٹ دھرمی چھوڑنے اور ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

قرآن کی اعلی صفات
قرآن کی اعلی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت دلوں کی بیماری کی شفا اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آپہنچی ہے تو کہہ دیجئے کہ یہ کتاب اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوئی ہے تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

نصیحت کے 3 قصے:

پہلا قصہ:

جن میں سے پہلا قصہ شیخ الانبیاء حضرت نوح علیہ السلام کا ہے جن کی عمر اور زمانہ تبلیغ تمام انبیاء علیہم السلام سے زیادہ طویل مگر ان کے متبعین بہت کم تھے۔

دوسرا قصہ:

پھر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے جنہوں نے فرعون جیسے خدائی کے دعویدار کا مقابلہ کیا۔

تیسرا قصہ:

حضرت یونس علیہ السلام کا ہے اور انہی کے نام پر اس سورت کا نام رکھا گیا اور قرآن کری میں حضرت یونس علیہ السلام کا صراحتاً نام چار جگہ آیا ہے اور دو مقامات پر انہیں “مچھلی والے” کی صفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔

مچھلی کا یونس علیہ السلام کو نگلنا اور اگلنا:

وہ اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوکر اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر “نینوا” کی سرزمین چھوڑ کر چلے گئے۔ آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی والوں نے سمندر میں طغیانی کی وجہ سے انہیں سمندر میں پھینک دیا۔ ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ اللہ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رکھا۔ بالآخر چند روز بعد مچھلی نے انہیں ساحل پر اگل دیا۔

اہل نینواں کا قصہ :

ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد عورتیں بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے انہوں نے آہ وزاری اور توبہ و استغفار شروع کر دیا اور سچے دل سے ایمان قبول کر لیا جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔

مشرکین کو تنبیہ:

یہ تین قصے ذکر کرنے کے بعد مشرکین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر وہ کفر و شرک سے باز نہ آئے تو قیامت سے پہلے ہی ان پر عذاب آ سکتا ہے۔

مومنین کو بشارت:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کو بشارت سنائی گئی ہے کہ اللہ کی مدد قریب ہے یہ ہماری سنت ہے کہ ہم بالآخر اہل ایمان کو نجات دیتے ہیں۔

سورہ یونس کی ابتدا اور انتہا:

جیسے سورہ یونس کی ابتداء قرآن حکیم کے ذکر سے ہوئی تھی اسی طرح اس کی انتہاء بھی اس قرآن کی پیروی کے حکم پر ہورہی ہے۔ ارشاد ہے:
“فرما دیجئے اے انسانوں! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے حق آچکا ہے توجو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو اس ہدایت کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس گمراہی کا وبال بھی اس پر پڑے گا اور میں (اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر وکیل نہیں ہوں۔
“اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسی کی اتباع کیجئے جو کلام آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور صبر کیجئے یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔”

>1.surah yunus tafseer in urdu pdf
2>surah yunus tafseer in english
3>surah yunus pdf
4>surah yunus tafsir ibn kathir
5>surah hud tafseer
6>surah yunus 
7>surah yunus benefits
8>surah yunus al islam

Leave a Comment