crossorigin="anonymous"> 3 Talaq Fatwa In Urdu | 3 Talaq K Baad Ruju | 3 Talaq Ka Kaffara In Urdu | تین طلاق ایک ساتھ دینے کے | Talaq Ka Masla - Molana Masood Nqb

3 talaq fatwa in urdu | 3 talaq k baad ruju | 3 talaq ka kaffara in urdu | تین طلاق ایک ساتھ دینے کے | talaq ka masla

 

3 talaq fatwa in urdu

 طلاق ایک دَم دینا گناہ ہے: ایک کوتاہی طلاق کے باب میں یہ شائع ہے کہ جب طلاق دیتے ہیں، تین ہی دیتے ہیں، اس طرف رُکتے نہیں، سو ایسا کرنا اوّل تو گناہتین  ہے،کَمَا فِيْ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ:

 

وَیُحْرَمُ لَوْ بِدْعِیًّا (إِلٰی أَنْ قَالَ) وَالْبِدْعِيٌّ ثَلٰثٌ مُتَفَرِقَّۃٌ أَوْ ثِنْتَانِ بِمَرَّۃٍأَوْ مَرَّتَیْنِ فِيْ طُہْرٍ وَاحِدٍ لَا رَجْعَۃَ فِیْہِ، أَوْ وَاحِدَۃً فـِيْ طُـہْرٍ وُطِئَتْ فِیْہِ، أَوْ وَاحِدَۃٌ فِيْ حَیْضِ مَوْطُوْئَ ۃٍ۔ فِيْ ’’رَدِّ الْمُحْتَارِ‘‘:قَوْلُہُ: (ثَلَاثَۃٌ مُتَفَرِقَّۃٌ) وَکَذَا بِکَلِمَۃٍ

 

اگر طلاقِ بدعت ہو تو حرام ہے، اور طلاقِ بدعی تین طلاقیں ہیں، الگ الگ یا دو طلاقیں ایک ہی دفعہ یا دو مرتبہ ایک طہر میں جس میں رجوع نہ کیا ہو، یا ایک طلاق ایسے طہر میں جس میں وطی کی گئی ہو یا ایک طلاق ہے موطوء ہ کے ایام حیض میں۔ ردّ المحتار میں ہے مصنف کا قول تین طلاق الگ الگ، اور اسی طرح ایک لفظ سے تین

وَاحِدَۃٍ بِالْأَوْلٰی۔۔۔ إِلَخْ۔

 

طلاق دینا بدرجہ ٔاولیٰ بدعت ہوا۔

 

تین طلاق ایک ساتھ دینے کے دنیوی مفاسد

 

شریعت اسلامی میں ایک ساتھ تین طلاق دینا ایک بہت بڑا جرم اور بہت بڑا گناہ ہے اگر انسان اپنے غلط طریقہ کار اور غلط اقدام سے شریعت اسلامی اور شریعت مطہرہ کے بتلائے ہوئے اصول سے ہٹ کر بیوی کو تین طلاق دے دے یکبارگی تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور بہت سخت جرم ہے ایک آدمی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بیوی کو تین طلاقیں دے دیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع کی گئی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم غصے سے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کہ میرے موجودگی میں اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیلا جائے گا مذاق کیا جائیگا ایسا ہرگز نہیں ہوگا نسائی شریاور علاوہ گناہ کے یہ دُنیوی مصلحت کے بھی اس لیے خلاف ہے کہ بعض اوقات بعد طلاق کے آدمی نادم ہوتاہے، تو اگر ایک طلاق دی ہو تو اگر وہ رجعی ہے تب تو رجعت کرکے اس کاتدارک کرسکتا ہے، اور اگر بائنہ ہے تو گو رجعت نہیں ہوسکتی، لیکن زوجہ کی رضا مندی سے نکاحِ جدید تو ہوسکتا ہے، بہر حال تدارک تو آسانی سے ممکن ہے، ایک صورت میں محض ارادئہ زوج سے، ایک صورت میں ارادئہ زوجین سے۔ اور تین ہیں تو دونوں کے ارادے سے بھی کوئی تدارک ممکن نہیں، جب تک کہ تیسرا آدمی حلالہ کرنے والا نہ ہو، پھر اس حلالہ کا تدارک ہونا بھی مشکوک (مشتبہ) ہے، کیوںکہ اگر حلالہ کرنے والے سے یہ شرط ٹھہرائی جائے کہ صحبت کرکے اس کو طلاق دے دینا تب تو اس فعل سے حدیث میںلعنت آئی ہے، ۔ّمحلل (حلالہ کرنے والے ) پر بھی اور ۔ّمحلل لہٗ (جس کے لیے حلالہ کیا جائے) اس پر بھی، اور ۔ُفقہا نے اس کو مکروہِ تحریمی کہا ہے۔ (کَذَا فِيْ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ) اور پھر شرط کے بعد بھی طلاق دینا اس کے اختیار میں ہے، زوجین کے اختیار سے خارج ہے، اور اگریہ شرط ٹھہرائی تو اس صورت میں تدارک بعید تر ہونا اور بھی ظاہر ہے، سو تین طلاق میں یہ خرابی ہے

 

ف حدیث کی کتاب ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک نوجوان نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آکر عرض کیا کہ میرے والد نے میری والدہ کو 1000 طلاقیں دے دی ہیں کوئی حل کی صورت اگر ہو تو بیان فرما دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ سے فرمایا کہ تیرے والد نے اتنی طلاقیں دے کر اپنے اوپر ظلم کیا اب تو تین طلاقوں سے بین ہوگی ختم ہوگی اور طلاق مغلظہ پڑ گئی

 

ایک حدیث پاک میں ہائے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی نے بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اس نے تین طلاق دے کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے اس نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی او سخت گناہ کا کام کیا اور شیطان کی پیروی کی ایک نوجوان نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے چاچا کے متعلق پوچھا تو حضرت نے یہی جواب عنایت فرمایاان احادیث مبارکہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اکٹھے تین طلاقیں دینا ایک بہت بڑا گناہ بہت سخت جرم بہت سخت گناہ ہے جس کا آج کل معاشرے میں عمو
پایا جاتا ہے اس لیے شریعت مطہرہ کے ہدایات پر تدابیر پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ایک طلاق دے دے جس میں بندے کو شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو پاکی میں ایک طلاق دے دے یادودے دے اس میں بھی رجوع کا حق ہے لیکن تین طلاق سے گریز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اس میں ایک بڑا گناہ اور بہت بڑا جرم ہے ائمہ اربعہ کے نزدیک تین طلاق تین طلاقیں ہوتی ہیں جمہور فقہاء کرام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک صلی اللہ علی النبی الامی واٰلہٖ وسلم تسلیما

Leave a Comment