crossorigin="anonymous"> Surah Al-Momin (Urdu) |سورہ المومنون کا ترجمہ تفسیر | Tafseer Ul Quran - Molana Masood Nqb

Surah Al-Momin (Urdu) |سورہ المومنون کا ترجمہ تفسیر | Tafseer ul Quran

سورة غافر ترتیبی نمبر 40 نزولی نمبر 60۔

Surah Al-Momin (Urdu)

مکی سورت : سورہ غافر مکی ہے۔

آیات ۸۵ آیات اور ۹ رکوع ہیں۔

وجه تسمیه:

Surah Al-Momin (Urdu) |سورہ المومنون کا ترجمہ تفسیر | Tafseer ul Quran
Surah Al-Momin (Urdu) |سورہ المومنون کا ترجمہ تفسیر | Tafseer ul Quran

سورة غافر کو سورہ مومن بھی کہا جاتا ہے۔
۱۔ غافر اس وجہ سے کہتے ہیں کہ آیت نمبر ۳ کے شروع میں غافِرِ الذنب آیا ہے۔ غافر کہتے ہیں بخشش کرنے والے کو مغفرت کرنے والے کو۔ یہ اللہ کی صفت ہے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک بندہ مومن کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی کے تذکرہ کی وجہ سے اس سورت کا دوسرا نام سورۂ مومن بھی ہے۔

سورت کا موضوع :

اس کے مطالعہ سے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس سورت کا موضوع حق و باطل اور ہدایت و ضلالت کے درمیان معرکہ کا بیان ہے۔

سورت کی ابتداء:

اس سورت کی ابتداء آنحضور ﷺ کے دائی معجزہ قرآن کے تذکرہ سے ہوتی ہے۔

تازہ اور زندہ کلام :

جو کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت کا گواہ ہے۔ اللہ کے علوم و معارف پر قدامت اور کہنگی کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ آج بھی تازہ اور زندہ کلام ہے۔ سائنسی ترقیاں اور جدید تحقیقات اس کے بیان کردہ علمی حقائق کی تصدیق کرتی ہیں۔ جوں جوں انسان کے علم میں اضافہ ہوگا۔ توں توں وہ قرآن کے ربانی کلام اور معجزہ ہونے کا اقرار کرتا جائے گا۔ شرط بس یہ ہے کہ اسے قلب سلیم عطا ہوا ہو اور وہ گروہی تعصب اور حاسدانہ بغض و عناد سے بالا تر ہوکر سوچے۔

ایک ہی آیت میں اللہ کی چار صفات:

قرآن کریم کے وحی الہی ہونے کا ذکر کرنے کے بعد ایک ہی آیت میں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں:
۱۔ وہ گناہ معاف کرنے والا
۲۔ توبہ قبول کرنے والا
۳۔ سخت سزا دینے والا
۴۔ اور بندوں پر فضل و احسان کرنے والا ہے۔

یہ سورت جن دوسرے موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ان میں چند ایک درج ذیل ہیں:

1۔ اہل ایمان کے لیے فرشتوں کی دعائیں:

وہ فرشتے جنہیں “حملة العرش” ( عرش کو اٹھانے والے ) ہونے کا شرف حاصل ہے اور وہ جو عرش کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ سب اللہ کی حمد وتسبیح کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ وہ عرض کرتے ہیں:
۱۔ اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے۔ پس تو مغفرت فرمادے ان لوگوں کی جو تو بہ کرتے ہیں اور تیری راہ کی اتباع کرتے ہیں۔
۲۔ اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔
۳۔ اے ہمارے رب! تو انہیں بھی ان دائمی باغات میں داخل فرمادے۔ جن کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔
۴۔ اور ان کے آباؤ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہیں۔ انہیں بھی داخل فرما دے۔ بے شک تو ہی حکمت والا ہے اور غالب۔
۵۔ اور ان کو عذابوں سے بچائے رکھ اور جسے تو نے اس دن عذابوں سے بچالیا تو بے شک تو نے اس پر مہربانی فرمائی اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

2۔ قرآن کا ایک خاص اسلوب :

قرآن کا جو ایک خاص اسلوب ہے کہ ترغیب کے بعد ترہیب جنت کے بعد جہنم اور اہل ایمان کے بعد اہل کفر کا تذکرہ کرتا ہے تو یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

کفار اور فجار کا حال

پہلے یہ بتایا گیا کہ مقرب فرشتے ایمان والوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اب کفار اور فجار کا حال بتایا جا رہا ہے۔
کہ جب انہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کر دیا جائے گا اور وہ اپنے اعمال بد کا انجام دیکھ لیں گے تو اپنے آپ سے سخت نفرت کریں گے۔

درخواست رد کر دی جائے گی:

اور اپنے آپ کو برا بھلا کہتے ہوئے معذرت پیش کریں گے۔ دنیا والی اکڑ فوں کو بھول کر بڑی ذلت اور انکساری کے ساتھ آگ کے شعلوں سے نکالنے کی درخواست کریں گے۔ لیکن ان کی یہ درخواست رد کر دی جائے گی۔

جہنم کے داروغے:

اور جہنم کے داروغے ان سے کہیں گے کہ جیسے آج عذاب کی شدت دیکھنے کے بعد تم اپنے آپ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہو۔ اس سے کہیں زیادہ نفرت اللہ تعالیٰ اس وقت تم سے کرتا تھا۔ جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی۔ لیکن تم تکبر اور سرکشی کرتے ہوئے کفر کرتے تھے اور ایمان قبول کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔

عدل و انصاف کا دن :

یہ قیامت کا دن تو بندوں کے درمیان عدل اور انصاف کا دن ہے۔ آج ہر شخص کو اس کے نیک یا بدعمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔

3۔ ظلم اور سرکشی کے مشہور کردار:

کفار پر اللہ کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے ظلم اور سرکشی کے مشہور کردار فرعون کا قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو پیش آیا تھا۔ یہ حقیقت سمجھانے کے لیے بیان کیا جارہا ہے کہ ظالموں اور متکبروں کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔

ایک بندہ مؤمن کا خاص طور پر تذکرہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ تو کئی سورتوں میں آیا ہے۔ مگر سورہ غافر میں اس کے ضمن میں ایک مومن بندہ کا خاص طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ (اسی تذکرہ کی وجہ سے اس سورت کا دوسرا نام سورہ مومن بھی ہے)۔ یہ شخص خفیہ طور پر ایمان قبول کر چکا تھا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مشورے ہونے لگے تو یہ صاحب ایمان انسان آپ کے دفاع کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ کیا تم ایک شخص کا خون صرف اس لیے بہانا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے جبکہ وہ تمہارے پاس واضح دلائل اور روشن معجزات بھی لے کر آیا ہے۔

صرف میری رائے ہی درست ہے:

لیکن فرعون اپنی بات پر اڑا رہا اور اس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ صرف میری رائے ہی درست ہے اور میرا سوچا سمجھا فیصلہ یہی ہے کہ موسیٰ کو قتل کر دیا جائے اس سے کم درجہ کی کوئی بات قابل قبول نہیں۔

آج کے ڈکٹیٹروں کا مزاج:

( قارئین کرام اگر آپ اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آج کے ڈکٹیٹروں کا مزاج بھی وہی ہے جو کل کے ڈکٹیٹروں کا تھا وہ اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ پوری انسانیت ایسے ہی ڈکٹیٹروں کے نرغے میں ہے اور خود امت مسلمہ کی گردنوں پر بھی ایسے ہی خود سر اور متکبر مسلط ہیں۔ جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور کسی بڑے سے بڑے عالم کی رائے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے)۔

فرعون کو خطرہ لاحق ہو گیا:

“رجل مؤمن” کی تقریر اس قدر موثر تھی کہ فرعون کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ میرے درباری اس کے دل سے نکلی ہوئی باتوں سے متاثر نہ ہو جائیں۔ اس نے پہلے تو اپنا قطعی فیصلہ سنا دیا کہ اب موسیٰ و ہارون (علیہماالسلام ) دونوں کا وجود برداشت نہیں کیا جائے گا۔

دیکھوں تو سہی کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے؟

پھر بندہ مومن کی تقریر دلپذیر کو مذاق ہی مذاق میں اڑانے کے لیے اپنے وزیر ہامان کو اس نے حکم دیا کہ میرے لیے ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کرو تا کہ میں دیکھوں تو سہی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا کہاں ہے؟

چالاک حکمرانوں کا وتیرہ :

(یہی چالاک حکمرانوں کا وتیرہ ہوتا ہے۔ وہ کبھی دھمکی کی زبان استعمال کرتے ہیں اور کبھی مخالف کی رائے کو استہزاء کا نشانہ بنا کر اس کی اہمیت لوگوں کی نظروں سے گرا دیتے ہیں)۔

فرعون کا تمرد اور استہزاء:

فرعون کے تمرد اور استہزاء کے باوجود بندۂ مؤمن نے اپنا بیان جاری رکھا۔ لیکن ظاہر ہے فرعون نہ خود ایمان پر آمادہ ہوا نہ اپنے مقربین کو اس طرف آنے دیا۔

فرعون اس کے انصار و اعوان عذاب کی لپیٹ میں:

نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اللہ کا بندہ (بندہ مومن) تو عذاب سے بچ گیا۔ جبکہ فرعون اور اس کے اعوان و انصار عذاب کی لپیٹ میں آگئے ۔ یہ عذاب قبر میں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور صبح و شام ان پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ آخرت میں تو انہیں شدید ترین عذاب کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔

4۔ چند نعمتوں کا تذکرہ:

فرعون جیسے ناشکروں، متکبروں اور ظالموں کا عبرت آموز تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی چند نعمتوں کا تذکرہ کرتا ہے۔
۱۔ خارجی کائنات
*اللہ نے سکون کے لیے رات
*دیکھنے اور معاش کے لیے دن بنایا ہے
*زمین سکون اور قرار کے لیئے
* اور آسمان کو چھت بنایا ہے
*حسین صورتوں سے نوازا ہے
*اور رزق کے طور پر پاکیزہ چیزیں عطا فرمائی ہیں۔
یہ سب اس کی نعمتیں ہیں۔ لیکن انسان ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا ۔ جن مقاصد کے لیے اللہ نے یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔ انہیں ان مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی ان میں غور و فکر کر کے اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔

۲۔ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل :

اگر انسان خارجی کائنات پر غور وفکر کرنے کی بجائے خود اپنی تخلیق ہی میں غور وفکر کرلے تو وہ اللہ کو پہچان سکتا ہے۔ انسان اپنی تخلیق میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ ان میں سے ہر مرحلہ ہی بڑا عجیب اور حیران کن ہے۔
۱۔ بے جان مئی سے اس کی ابتدا ہوتی ہے
۲۔ پھر نطفه
۲۔ جما ہوا خون
۴۔ گوشت کی بوٹی
۵۔ ہڈیاں
۶۔ ڈھانچہ
۷۔ جان
۸۔ عقل
۹۔ سمع
۱۰۔ بصر
۱۱۔ پورے جسم میں ہزاروں میل لمبی پھیلی ہوئی رگوں کا جال
۱۲۔ خون کی گردش دل کی حرکت
۱۳۔ تین سو ساتھ جوڑ ۔

۳۔ پیدائش کے بعد :

پیدا ہوتا ہے:
۱۔ تو از حد کمزور
۲۔ اور عاجز
۳۔ نه طاقت گفتار
۴۔ نه تمیز و عرفان
۵۔ پھر اسے اللہ عقل و فہم
۶۔ اور قوت اور اک عطا کرتا ہے
۷۔ بچپن کے بعد جوانی کی حدود میں قدم رکھتا ہے۔

۴۔ بڑھاپے کی کارگزاریاں :

پھر بڑھاپا اسے آلیتا ہے اور انسان ویسے ہی ہو جاتا ہے جیسے بچپن میں تھا۔
۱۔ نظر کمزر
۲۔ عقل میں خلل
۳۔ اعضاء میں ضعف
۴۔ حواس میں تعطل
۵۔ چلنے پھرنے
۶۔ اور اٹھنے بیٹھنے سے عاجز ۔

۵۔ موت:

یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔ موت بھی اس کی تخلیق کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ موت کے بعد دوبارہ زندگی دی جاتی ہے۔ تا کہ اس کی تخلیق کے بقیہ مراحل سی بھی تحمیل ہو جائے۔

۶۔ کون ہے جو ان سارے مراحل کی نگرانی کرتا ہے:

ایک طرف انسانی زندگی کی یہ جو بہ کاریاں اور قدرت الہیہ کی زندہ نشانیاں ہیں تو دوسری طرف آیات الہیہ میں جھگڑا کرنے والوں کا انکار اور اعراض جو یہ بھول ہی جاتے ہیں۔
کہ ہم مٹی اور نطفہ سے بڑھاپے اور موت تک کن مراحل سے گزرتے ہیں اور کون ہے جو ان سارے مراحل کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی لیے انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
“کیا آپ (ﷺ) نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا۔ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں یہ کہاں پھرے جارہے ہیں۔”

ہلاک شدہ اقوام کا انجام

سورت کے اختتام پر پہلے حضور ﷺ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد جھٹلانے والوں کو زمین پر چل پھر کر ہلاک شدہ اقوام کا انجام اور ان کے آثار دیکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان اقوام کو بھی اپنی ظاہری قوت اور مادی وسائل پر بڑا ناز تھا۔ انہوں نے انبیاء کے معجزات اور صداقت کی واضح نشانیوں کو جھٹلا دیا۔

مشاہدہ کر لینے کے بعد ایمان قبول نہیں :

پھر جب انہوں نے اللہ کا عذاب اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا تو توحید کا اقرار اور بت پرستی سے بیزاری کا اظہار کیا۔ لیکن یہ اقرار اور اظہار ان کے کسی کام نہ آیا۔ اس لیے کہ اللہ کا دستور متکبروں اور سرکشوں کے بارے میں یہ ہے:
کہ عذاب کا مشاہدہ کرلینے کے بعد ان کا ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔

 

1>سورت المؤمنون کی روشنی میں اہل ایمان کی صفات تحریر کریں
2>سورہ مومنون کا شان نزول
3>سورہ النور اردو ترجمہ
4>سورۃ المومنون
5>قرآن کا ترجمہ اور تفسیر
6>سورہ مومنون کی فضیلت
7>أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا اردو ترجمہ
8>سورہ المومنون کی آخری چار آیات

Leave a Comment