Miya Biwi Ke Huqooq In Islam In Urdu | Wife’s rights in Urdu | میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے تابع

میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی زینت ہیں

 

: تشبیہ اور میرے ذہن میں آئی کہ جیسے لباس میں ستر کی شان ہے، اسی طرح عورت مرد کی ساتر (چھپانے والی) اور مرد عورت کے لیے ساتر ہے۔ یعنی ہر ایک دوسرے کے عیوب کے لیے ساتر ہے۔
اور جس طرح لباس زینت ہے اسی طرح زوجین میں عورت مرد کے لیے اور مرد عورت کے لیے زینت ہے۔ لباس کا زینت ہونا تو خود نص سے ثابت ہے۔


{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ }1 (1 الأعراف: ۳۱) میں بالاتفاق زینت سے مراد لباس ہے۔ اوپر سے لباس کا ہی ذکر ہورہا ہے۔ چناں چہ اس سے پہلے ارشاد ہے:


{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط}1 (1 الأعراف: ۲۶
یہاں لباس کو گو صراحتاً زینت نہیں کہا گیا مگر زینت کا جو نتیجہ ہے وہ یہاں بھی مذکور ہے۔ یعنی {یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ} یعنی ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس ایجادکیا جو تمہاری بدنمائی کو ڈھانکتا ہے اور یہی زینت کا حاصل ہے کہ بدنمائی اور عیوب پوشیدہ ہوجائیں اور ریش سے مراد پرندوں کے پرہیں کہ وہ حیوانات کے لیے زینت ہیں۔
غرض جس طرح لباس زینت ہے اسی طرح شوہر بیوی کی زینت ہے اور بیوی اپنے مرد کے لیے زینت ہے۔ عورت سے تو مرد کی زینت یہ ہے کہ بیوی بچوں والا آدمی لوگوں کی نگاہ میں معزز ہوتا ہے اور مرد سے عورت کی عزت یہ ہے کہ لوگ اس کی اوپر کسی قسم کا شبہ نہیں کرتے اور نکاح سے پہلے عورت کی عزت و آبرو ہر وقت خطرہ میں رہتی ہے۔1 (1 رفع الالتباس: ص۱

مرد عورت دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں

: ایک وجہ تشبیہ کی اور میرے ذہن میں آئی کہ جیسے بغیر کپڑے کے انسان سے صبر نہیں ہوسکتا اسی طرح بغیر نکاح کے مرد و عورت کو صبر نہیں آسکتا۔ محض تقاضائے نفس ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اعانت وغیرہ میں عورت اپنے خاوند کی محتاج ہے اور خدمت و راحت رسانی میں مردعورت کا محتاج ہے۔چناں چہ بیماری کے زمانہ میں بیوی سے زیادہ کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔

 

ایک بوڑھے میاں نے ستر اسّی برس کی عمر میں پہلی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی کا ارادہ کیا۔ حالاں کہ ان کی بہو بیٹیاں بہت تھیں۔ سب نے منع کیا کہ تمہاری خدمت کے لیے ہم موجود ہیں نکاح کی کیا ضرورت ہے۔ بڑے میاں نے کہا کہ بیوی کے برابرکوئی خدمت نہیں کرسکتا اور موقع پر میں تم کو بتلادوں گا۔ چناں چہ نکاح ہوا اور چند سال کے بعد بڑے میان کو ایک مرض ہوا۔ اس میں دست آنے لگے تو ساری بہو بیٹیاں بدبو سے گھبرا کر الگ ہوگئیں اور بیوی کی یہ حالت تھی کہ ان کو پیروں پر بٹھلا کر پاخانہ کراتی اور استنجا کراکے کپڑوں کو پاک و صاف کرتی۔ دن میں بیس پچیس دست بھی آتے تو ہر دفعہ اس کو پاک و صاف کرکے لٹاتی تھی تو اس وقت بڑے میاں نے کہا کہ میں نے اس دن کے واسطے نکاح کیا تھا۔ دیکھ لو آج اس کے سوا کوئی کام نہیں آیا۔
پس لباس کی طرح مرد کو عورت سے استغناء نہیں۔ عورت کو مرد سے استغناء نہیں۔ مرد عورت کا معاون ہے عورت مرد کی خادم ہے۔

میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے تابع:

مرد کو عورت اور عورت کو مرد

 

سے یعنی تشبیہ باللباس یعنی (لباس سے تشبیہ دینے میں ) ایک نکتہ اور سمجھ میں آیا، وہ یہ کہ لباس تابع ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں مردوں کے تابع ہیں۔ پھر لباسیت نساء (عورتوں کے لباس ہونے کا) ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تابیعت (تابع ہونے میں ) عورتیں مقدم ہیں۔
یہاں سوال یہ ہوگا کہ آگے تو مردوں کو بھی عورتوں کا لباس کہا گیا ہے تو کیا وہ بھی عورتوں کے تابع ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایک درجہ میں وہ بھی تابع ہیں، لیکن ان کی تابیعت بعد میں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عورتیں تو فطرتاً اور قانوناً مردوں کے تابع ہیں اور مرد محبت کی وجہ سے تابع ہوجاتے ہیں۔1 (1 رفع الالتباس: ص۱۷۰
میاں بیوی کے تعلق کی حیثیت: عورت بے شک محکوم ہے، لیکن وہ ایسی محکوم نہیں ہے جیسی اماء لونڈی (نوکر نوکرانی) محکوم ہوتی ہے۔ بلکہ اس کو مرد کے ساتھ دوستی کا بھی تعلق ہے اور اس تعلق کا خاصہ ہے کہ اس میں ایک قسم کا ناز بھی ہوتا ہے۔ اس تعلق کے ساتھ مرد کا عورت پر وہ رعب نہیں ہوسکتا جو نوکروں پر ہوا کرتا ہے۔ مرد یہ چاہتے ہیں کہ بیوی پر بھی اس طرح کا رعب جمائیں جس طرح نوکر پرجمایا کرتے ہیں۔ یہ نہایت سنگدلی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس تعلق کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔
صاحبو! یہ وہ تعلق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی بعض دفعہ ازواج مطہرات ناز میں آکر برابر کے دوستوں کا سا برتاؤ کرتی تھیں۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے برابر کون ہوگا۔ حضور ﷺ ہر کمال میں بے نظیر تھے۔ کوئی آپ ﷺ کے برابر کا نہ تھا۔ نیز اس کے ساتھ آپ ﷺ صاحب سلطنت تھے۔ سلطنت کا رعب بھی آپ ﷺ میں بہت زیادہ تھا
سلاطین آپ ﷺ کا نام سن کر کانپتے تھے) مگر ان سب کے باوجود بیویوں پر آپ ﷺ نے کبھی رعب سے اثر نہیں ڈالا۔ بلکہ ان کے ساتھ آپ ﷺ کا ایسا برتاؤ تھا جس میں حکومت اور دوستی کے دونوں پہلو ملحوظ رہتے تھے۔
تعلق حکومت کا تو یہ اثر تھا کہ ازواج مطہرات حضور ﷺ کے احکام کی مخالفت کبھی نہ کرتی تھیں۔ آپ ﷺ کی تعظیم و ادب اس درجہ کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی کی عظمت بھی ان کے دل میں حضور ﷺ کے برابر نہ تھی۔ اور تعلق دوستی کا یہ اثر تھا کہ بعض دفعہ حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ پر ناز کرتیں، مگر کبھی آپ ﷺ کو ناگوار نہ ہوتا تھا۔1 (1 حقوق البیت: ص۲۳

Leave a Comment