crossorigin="anonymous"> توکل کا مطلب | Toheed | اللہ پر یقین | Believe In Allah | 5 Aqaid E Islam In Urdu ( Topic No 1 Part III) | Iman | Believe | Best Topic On Allah Per Iman - Molana Masood Nqb

توکل کا مطلب | Toheed | اللہ پر یقین | Believe in Allah | 5 Aqaid e Islam in Urdu ( topic no 1 part III) | Iman | Believe | Best Topic On Allah Per Iman

توکل کا مطلب | Toheed | اللہ پر یقین | Believe in Allah | 5 Aqaid e Islam in Urdu ( topic no 1 part III) | Iman | Believe | Best Topic On Allah Per Iman
توکل کا مطلب | Toheed | اللہ پر یقین | Believe in Allah | 5 Aqaid e Islam in Urdu ( topic no 1 part III) | Iman | Believe | Best Topic On Allah Per Iman

Table of Contents

توکل کا مطلب

توکل کا مطلب کیا ہے

 

توکل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں بھروسہ کرنا تو بھروسہ کرنے سے مراد کیا ہے اور بھروسہ کس پر کرنا چاہیے بھروسہ سے مراد ہے کہ وہ ذات جس پر اعتماد کیا جائے کہ یہ میرا مسئلہ حل کرے گی وہ ذات جو ان تمام مشکلات میں ہماری حامی و ناصر ہے اور وہ

ذات جس کے پاس تمام مسائل کا حل ہے اور وہی ہے جو مجھے ان مشکلات سے نکالے گا اور ان تمام خصوصیات کی حامل صرف ایک ہی ذات ہے جو ہمیں ان مسائل سے نکال سکتی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات اللہ پاک ہی ان خصوصیات کا حامل ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز

نہیں کہ کوئی انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے اور یہ کہے کہ میرا رب میرا مسئلہ حل کرے گا ایسا ہرگز نہیں تمام وسائل اور اسباب جو انسان کے اختیار میں ہیں انہیں استعمال میں لانا اور اسباب کے درجے میں رہتے ہوئے انہیں اختیار کرنا ہرگز غلط نہیں ہے بلکہ یہ واجب

ہے اور وہ تمام اسباب جو اپ کو میسر ہیں انہیں اختیار کرنا چاہیے اور یہی اسلام کی ترغیب ہے

اگربھروسہ اور توکل سے یہ مراد ہوتا کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر انسان پڑا رہے اور یہ کہے کہ میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں

تو اس سے متوکل یعنی اللہ پر بھروسہ کرنے والا تو نہیں کہا جا سکتا ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اعلی درجے کا پوستی یعنی سست ہے کے دین اسلام میں کہیں بھی اس طرح کی توکل کی کوئی مثال نہیں ملتی

 

توکل کا مطلب

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسباب اختیار کیے اسی طرح سے تمام انبیاء

کرام نے اسباب کے درجے میں رہتے ہوئے تمام وسائل اختیار کیے اور ان کو استعمال میں لائے

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسباب اختیار کیے اور اسباب کے درجے میں رہتے ہوئے تمام وسائل کو اختیار کیا حدیث کا مفہوم ہے ایک مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دیوار کے قریب سے گزر رہے تھے اور وہ دیوار ٹوٹی ہوئی تھی اور خستہ حال تھی ایسے

معلوم ہوتا تھا کہ یہ ابھی گر جائے گی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس سے گزرے تو انتہائی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گزرے کس بات کی دلیل ہے بات کی نا کہ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایسا کیا تو یہ حدیث کس بات کی دلیل ہے یہ اس بات کی

دلیل ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے جو اسباب میسر ہوں وہ اختیار کرو تو بتائیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی شخص متوکل ہو سکتا ہے پر کیا ان سے بڑھ کر بھی کسی کا اپنے رب پر توکل ہو سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں انہوں نے یہ عمل ہمیں طریقہ سکھانے

کے لیے کیا کہ اپنی حفاظت کے لیے جو اسباب میسر ہوں انہیں اختیار کرو اسی طرح سے اپنے مسائل کے حل کے لیے جو اسباب اپ کو میسر ہوں وہ اختیار کرو

 

توکل کا مطلب

ہماری کم عقلی اور کم فہمی ہے اور یہ صرف دین سے دوری ہے ہم چونکہ دین سے دور ہیں کبھی دین کو پڑھا نہیں اور خود ساختہ دین بنائے بیٹھے ہیں اور خود ساختہ طرز زندگی اپنائے بیٹھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اج دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ساری زندگی کا کوئی بھی پہلو

 

 

شریعت کے مطابق نہیں اور ہمارے اندر اج بھی وہی من گھڑت طرز زندگی اور وہی من گھڑت قصے کہانیاں موجود ہیں ہم کچھ کرتے نہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا تو رب پر بھروسہ ہے کہ ایک غلط کانسپٹ ہے میرا اور اپ کا رب پتہ ہے کیا کہتا

ہے اسباب جو تمہیں میسر ہوں وہ تمام اختیار کرو اور بھروسہ مجھ پر کرو ان میں کامیابی یا ناکامی دینا وہ میرے اختیار میں ہے لیکن جو تمہارے اختیار میں ہے وہ تم کرو کی مثالیں ہمیں انبیاء کی زندگیوں سے ملتی ہیں مشکلات انبیاء پر بھی ائیں بلکہ کائنات میں سب سے زیادہ

مشکلات انبیاء پر ہی ائیں لیکن انہوں نے مشکلات سے نکلنے کا راستہ اختیار کیا اور پھر اللہ نے کامیابی عطا کر دی حضرت محمد کا طرز عمل بھی یہی رہا پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی تو انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اللہ کا دین ہے اور وہ خود اس کو پھیلا سکتا ہے اور وہ اس

دین کو پھیلانے پر قادر ہے اور میرا بھی اپنے رب پر بھروسہ ہے کہ وہ پھیلا دے گا ایسے کرتا ہوں ہاتھ میں تسبیح لے کر ایک جگہ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا جاتا ہوں اور دین خود بخود پھیلتا چلا جائے گا تو نہیں کیا انہوں نے انہیں پتہ تھا راستہ کٹھن ہے مشکلات اور رکاوٹیں لاتعداد اور

بے شمار ہیں لیکن چونکہ میں حق پر ہوں اس لیے مجھے اس مبارک کام پر کمر کسنی ہوگی اور اس راستے پر چلنا ہوگا وہ کام جو میرے ذمے میرے رب نے لگایا ہے اس کے لیے مجھے نکلنا ہوگا اس کے لیے محنت اور کوشش کرنا میرا کام ہے ہاں بھروسہ رب پر ہے وہ ان

مشکلات سے لڑنے اور کامیاب ہونے کی قوت ضرور عطا کرے گا اور یہ کہ میرا یہ پیغام حق اور سچ ہے لہذا کامیابی ضرور حاصل ہوگی کیونکہ میرا رب میرے ساتھ ہے اور میرا اس کی ذات پر بھروسہ ہے وہ ان کٹھن راہوں پر میرا مددگار اور ساتھی ہوگا اور مجھے مشکلات

سے نکال کر منزل مراد پر ضرور پہنچائے گا تو وہ مشکلات سے لڑنے کے لیے نکل پڑے اور اللہ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی

 

توکل کا مطلب

تو اب دیکھیے انہوں نے محنت کی کوشش کی اور پختہ ارادہ کیا کہ میرے ذمے جو کام میرے رب نے لگایا ہے میں نے وہ سر انجام دینا ہے اور میرا توکل میرے رب پر ہے کہ وہ مجھے ضرور کامیابی عطا کرے گا ہاں  طریقےمختلف اختیار کیے شروع میں دین کمزور تھا اس لیے چھپ کر

 

تبلیغ کی پھر اس دین کی مضبوطی اور پھلنے پھولنے کے لیے دعائیں مانگیں ان کو یہ تو یقین تھا کہ یہ پودا جو میں نے لگایا ہے جس کی کونپلیں نکلنا شروع ہوئی ہیں ایک دن ضرور تناور درخت بنے گا اور دور دور کے لوگ اس کی چھاؤں سے فیض یاب ہوں گے لیکن اس کے لیے

کرنا کیا کچھ پڑے گا یہ وقت بتائے گا وقت تھا جب میرے نبی دعا فرما رہے تھے اے اللہ اس دین کو عمر یا ابوجہل سے بہادر انسان کے ذریعے سے تقویت عطا فرما میرے رب نے یہ دعا عمر کے حق میں قبول فرما لی حضرت عمر نے اسلام قبول فرما دیا اور وہ ایسے بہادر انسان

تھے حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے اسلام کی تبلیغ چھپ کر کی جاتی تھی اور نماز چھپ کر پڑھی جاتی تھی کیونکہ یہ وقت کا تقاضا تھا اس وقت صرف چند لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا کفار کی تعداد بہت زیادہ تھی کا رویہ اتنا ظالمانہ تھا کہ جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس کو

بہت زیادہ مارا جاتا اور زدوں کو کیا جاتا یہی وجہ تھی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ترغیب فرمائی کہ ابھی کسی پر ظاہر نہ ہونے دو کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے عبادات چھپ کر کی جاتی اور تبلیغ اسلام بھی چھپ کر کی جاتی

 

توکل کا مطلب
لیکن جیسے ہی حضرت عمر نے اسلام قبول کیا وہ با اواز بلند کلمہ پڑھتے ہوئے مسجد سے نکلے ننگی تلوار ہاتھ میں تھی کہ رہے تھےکہ کوئی ہے  تو ائے میرے سامنے اور مقابلہ کرے ان کے قبول اسلام کے بعد الاعلان اسلام کی تبلیغ ہونے لگی اور علل اعلان نماز پڑھی جانے لگی

 

اگر توکل کا مطلب صرف بھروسہ کر کے بیٹھ جانا ہوتا تو پھر اللہ کے رسول جنگیں کیوں لڑتے مختلف چیزوں کے حصول کے لیے محنت اور کوشش کیوں کرتے سب کفار مکہ نے حد سے زیادہ ستایا اور پریشان کیا اور ہر کام میں رکاوٹ ڈالتے تو میرے نبی نے ہجرت فرما لی ان

کے جو شخص اسلام قبول کرتا اس کے ساتھ کفار بہت برا سلوک کرتے ان کے اوپر ظلم و ستم ڈھاتے اللہ کے نبی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اتنا اصحابہ کے ساتھ تاکہ وہاں جا کر ہم امن کی زندگی گزار سکیں دین اسلام پھیلا سکے اور اسلام کی جڑیں مضبوط کر سکیں پھر بالکل

ایسا ہی ہوا مکہ کی نسبت مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلا اور وہاں لوگوں نے پرسکون زندگیاں گزاری اگر توکل کا مطلب کسی قسم کی کوئی محنت کوشش اور ارادہ کرنا نہ ہوتا اور خاموشی سے ظلم سہنا ہوتا خاموشی سے ہر طرح کا ظلم برداشت کیے جاؤ اور صبر کیے جاؤ ہاتھ پر ہاتھ

رکھے بیٹھے رہو تو پھر اللہ کے رسول ہجرت کیوں فرماتے پھر وہ کیوں اپنے صحابہ کو حکم فرماتے کہ یہاں سے تم ہجرت کر جاؤ سے رہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے ایک مرتبہ مسلمانوں نے ہجرت حبشہ بھی فرمائی تھی جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی بھی تھی کو

اجازت دی تھی لوگوں کو عزت فرمانے کی اس لیے نا کہ وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاتا تھا اور مسلمان ظلم سہ سہ کر تنگ ا چکے تھے تو ان کو حبشہ کی طرف ہجرت فرمانے کا حکم دیا

انہوں نے یہ سب اللہ کے حکم سے کیا کیونکہ اس وقت اللہ کے نبی موجود تھے اور وحی کا دروازہ کھلا تھا اس لیے میرے رب رہنمائی فرماتے گئے اور بہت سی جگہوں پر اللہ نے ایمان والوں کے ایمان کو ازمایا بھی اور بہت سی جگہوں پر مدد بھی فرمائی دراصل یہ سب ہماری

رہنمائی کے لیے تھا اور ہمیں طریقہ سکھانے کے لیے تھا ورنہ اللہ تو قادر ہے نا بغیر محنت کے عطا کرنے پر بھی اور اللہ کے نبی ایک بار مانگتے تو وہ عطا کرتے تھے لیکن اللہ کی مشیت یہ تھی وہ اس کے لیے محنت کریں کوشش کریں اور ارادہ کریں دراصل یہ سب ہماری

رہنمائی کے لیے تھا ہم سکھانے کے لیے تھا زندگی میں ہی مشکلات کا حل کس طرح سے نکالنا ہے اور ان سے کس طرح سے لڑنا ہے کس طرح سے اللہ پر بھروسہ کرنا ہے روزہ اپنے رب پر کرو اسباب کے درجے میں رہتے ہوئے تمام اسباب جو تمہاری اختیار میں ہیں انہیں

اختیار کرو اب دیکھو غار والے واقعے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حفاظت کے تمام اقدامات اختیار کیے کن بھروسہ کس پر کیا اللہ پر جب کافر سر پر اگیا تو فرمایا کہ ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے پتہ تھا کہ ہم حق پر ہیں اور یہ سب ناحق ہیں جیت اور کامیابی ہمیشہ حق پر

ہونے والے کو ملتی ہے لہذا میں حق پر ہوں اور یہ غلط ہے تو کامیابی مجھے ہی عطا ہوگی

ہاں ہمارے ذمے جو ہے وہ یہ ہے کہ تم ارادہ کرو کوشش کرو اور دل جمعے کے ساتھ محنت کرو اور بھروسہ اپنے رب پر کرو اگر تم حق پر ہو تو میرا رب تمہیں کامیابی ضرور عطا کرے گا پاک میں ارشاد باری تعالی ہے

ترجمہ بے شک اللہ تعالی کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں

ایت مبارکہ کیا ظاہر کرتی ہے اس ایت مبارکہ کے ذریعے سے میرے رب نے بھی یہ غلط فہمی دور کر دی کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا لہذا ہم متوکل ہیں پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں اس لیے

لمبی تان کر سوئے پڑے ہیں اس لیے سب کچھ خود بخود حل ہو جائے گا میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہاتھ پاؤں ہلانے کی ضرورت ہے ہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے ایسے شخص کو متوکل تو نہیں کہا جا سکتا البتہ اول درجے کا سست اور کاہل کہا جا سکتا ہے

 

توکل کا مطلب
غور طلب نقطہ

 

ارے وہ کام جو ہمارے روزمرہ کے معمولات ہیں وہ ہم کیوں کرتے ہیں ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم لقمہ توڑ کر منہ میں نہیں ڈالتے خود ڈل جائے گا بازار نہیں جاتے خود بخود بازار کا سودا ا جائے گا ہم چار پائی سے نہیں اترتے خود بخود اتر جائیں گے سب کے بارے میں تو

ہم محنت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے روزمرہ کے معمولات ہیں اور ہمارا یقین ہے کہ ہم اتی لائیں گے محنت کریں گے تو کچھ ائے گا اور باقی کاموں کے لیے ہم یہ کیوں سوچتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اللہ پر توکل ہے نہ کوئی محنت کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی کوشش

کرتے ہیں ازاد سب کچھ خود بخود ہو جائے گا سمجھتے ہیں کہ یہی ہمارا توکل ہے اگر یہ کہا جائے کہ نماز کی پابندی کریں تو ہمارے معاشرے کے کچھ لوگوں کی طرف سے جواب ملتا ہے اللہ اپنے فضل سے بخش دے گا اگر یہ کہا جائے کہ دین پر عمل کریں قران کے مطابق زندگی

گزارنے کی کوشش کریں تو جواب ملتا ہے ہم سے یہ سب کہاں ہو سکتا ہے وہ تو اعلی درجے کے لوگ تھے جو یہ سب کر گئے ہم سے کہاں ہو سکتا ہے اور ہم کہاں ایسا کر سکتے ہیں تو بھائی یہ کس کے لیے نازل ہوا ہے کے نزول کا مقصد کیا ہے جب ہم نے اپنی زندگیوں میں وہ

عمل ہی نہیں لانا وہ سبھی ہی نہیں کرنا جس کا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے بلکہ وہ سب کرنا ہے جو ہمارا معاشرہ کرتا ہے تو پھر کامیابی کیسی پھر تو ناکامیوں کا منہ دیکھنا ہی پڑے گا

toheed pdf
toheed ki tareef
islam k bunyadi aqaid in urdu pdf
islam ki bunyadi aqaid in urdu notes
islam k 7 bunyadi aqaid in urdu
islam ke bunyadi aqaid kitne hain
5 aqaid e islam names in urdu
bunyadi aqaid of islam in english
bunyadi aqaid pdf
islam ki bunyadi aqaid dawateislami
aqaid e islam kitne hain
how many aqaid e islam in urdu
islami aqaid in urdu pdf
bunyadi aqaid of islam in urdu
islam ke bunyadi aqaid pdf
aqaid e islam pdf
toheed in islam
toheed urdu
toheed ki iqsam
toheed ki iqsam in urdu

Leave a Comment